An animal with a surprising "gun
An animal with a surprising "gun"
The pistol shrimp is a small animal, but it packs a powerful punch. It is the noisiest animal in the world, producing a sonic boom louder than a Concorde.
This shrimp closes its claw so fast that a bubble forms in the water, which immediately bursts, creating a loud sound. The shock reaches 230 decibels, louder than a gunshot.
When this bubble bursts, it produces a heat of 4,400 degrees Celsius (7,952 Fahrenheit) for a few moments, which is as hot as the surface of the sun, and it kills the prey instantly.
This amazing phenomenon is called "sonoluminescence." Sonoluminescence is the light produced when a bubble in a liquid bursts, stimulated by sound waves. The process also produces light and heat.
The complete process of sonoluminescence is still a mystery to scientists. Various theories such as hotspot bremsstrahlung and collision-induced radiation try to explain it. It is a fascinating and mysterious phenomenon that scientists are still trying to understand.
ایک حیران کن "بندوق" رکھنے والا جانور
پسٹل شرمپ ایک چھوٹا سا جانور ہے مگر اس میں ایک زبردست طاقت چھپی ہے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ شور پیدا کرنے والا جانور ہے، جو ایک سونک بوم پیدا کرتا ہے جو کونکورڈ طیارے سے بھی زیادہ زور دار ہوتا ہے۔
یہ جھینگر اپنے پنجے کو اتنی تیزی سے بند کرتا ہے کہ پانی میں ایک بلبلا بنتا ہے جو فوراً پھٹ جاتا ہے اور ایک زور دار آواز پیدا کرتا ہے۔ یہ جھٹکا 230 ڈیسی بیل تک پہنچتا ہے، جو بندوق کے فائر سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔
یہ بلبلا جب پھٹتا ہے تو لمحوں کے لیے 4,400 ڈگری سینٹی گریڈ یعنی 7,952 فارن ہائیٹ کی حرارت پیدا کرتا ہے، جو سورج کی سطح جتنی گرم ہوتی ہے، اور یہ شکار کو فوراً مار دیتا ہے۔
اس حیران کن مظہر کو "سونولومینیسنس کہا جاتا ہے۔ سونولومینیسنس وہ روشنی ہے جو مائع میں بلبلے کے پھٹنے پر، آواز کی لہروں سے متاثر ہو کر پیدا ہوتی ہے۔ اس عمل میں روشنی اور حرارت بھی پیدا ہوتی ہے۔
سونولومینیسنس کا مکمل عمل ابھی تک سائنسدانوں کے لیے معمہ ہے۔ مختلف نظریات جیسے ہاٹ اسپاٹ بریمسسٹرالنگ اور کولیژن انڈیوسڈ ریڈی ایشن کی وضاحت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ اور پراسرار مظہر ہے جسے سائنسدان اب بھی سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں
Comments
Post a Comment