Sutlej River Pakistan
Sutlej River Punjab Pakistan
Sutlej River is one of the rivers of Punjab. It originates from Rakshasthal, a lake in Tibet. Its total length is 1448 km. Sutlej is also called Red River in Greek language. Also, its ancient name is Satadri. The local people of Tibet also call it Elephant River.
The Sutlej River flows through the Himalayan gorges, irrigating an area of up to 900 miles in the state of Himachal Pradesh, before entering the plains of Hoshiarpur district. From here in the form of a large canal, it joins the river Beas and enters the Pakistani territory in the Kasur district of the Pakistani Punjab and merges with the Chenab river at Panjand through Och Sharif. It is 62 km west of Bahawalpur.
It flows through the Sulaimanki headwaters near Deepalpur and irrigates the lands of Bahawalpur and Bahawalnagar districts.
The Nawab of Bahawalpur made canals from the Sutlej River to make his state fertile, the water of which is not only irrigating the lands but also used to grow crops in some areas of the Cholistan desert.
India's right to the water of this river has been recognized under the Indus Basin Agreement of 1960.
India has built the Bhakra Dam on the Sutlej River, which generates 450,000 kilowatts of electricity and uses its water for agricultural purposes. Apart from this, India has made the region fertile by constructing canal projects from the river Sutlej called Sirhind Canal and Sutlej Valley.
The water of this river irrigates agricultural land in the Indian provinces of Punjab, Haryana and Rajasthan. In the Sutlej River, water from India enters Pakistani territory now only in the form of floods because India
Flood Release River
uses as
Before the war between the Sikhs and the British in 1849, this river used to serve as a border. The Sutlej River joins the Indus River at Kot Mithan. In ancient times, the river Sutlej used to pass near the town of Ach Sharif in Tehsil Ahmedpur Sharqiya. Its traces are still there today.
دریائے ستلج پنجاب پاکستان
دریائے ستلج پنجاب کے دریاؤں ميں سے ایک دریا کا نام ہے۔ یہ تبت کی ایک جھیل راکشاستل سے نکلتا ہے اس کی کل لمبائی 1448 کلومیٹر ہے ستلج کو یونانی زبان میں سرخ دریا بھی کہا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اس کا قدیم نام ستادری ہے تبت کے مقامی لوگ اسے دریائے ہاتھی بھی کہتے ہیں
دریائے ستلج ہمالیہ کی گھاٹیوں سے گذر کر ہماچل پردیش کی ریاست میں 900 میل تک کے علاقے کو سیراب کرتا ہوا، ضلع ہوشیار پور کے میدانی علاقوں میں آ جاتا ہے۔ یہاں سے ایک بڑی نہر کی شکل میں جنوب مغرب کی طرف بہتا ہوا دریائے بیاس کے ساتھ مل کر پاکستانی پنجاب کے ضلع قصور میں پاکستانی علاقہ میں داخل ہوتا ہے اور اوچ شریف سے ہوتا ہوا پنجند کے مقام پر دریائے چناب میں ضم ہوجاتا ہے یہ مقام بہاولپور سے 62 کلومیٹر مغرب میں ہے۔
دیپالپور کے نزدیک سلیمانکی ہیڈورکس سے گزرتا ہوا بہاولپور اور بہاولنگر کے اضلاع کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔
نواب بہاولپور نے اپنی ریاست کو زرخیز بنانے کے لیے دریائے ستلج سے نہریں نکالیں، جن کا پانی نہ صرف زمینوں کو سیراب کر رہا ہے بلکہ صحرائے چولستان کے کچھ علاقوں میں فصلیں اگانے میں استعمال ہوتا ہے۔
۔1960ء کے سندھ طاس معاہدہ کے تحت اس دریا کے پانی پر بھارت کا حق تسلیم کیا گیا ہے۔
ہندوستان نے دریائے ستلج پر بھاکڑہ ڈیم تعمیر کیا ہے، جس سے 450,000 کلو واٹ بجلی پیدا ہوتی ہے اور اس کا پانی زرعی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان نے دریائے ستلج سے سرہند کینال اور وادی ستلج کے نام سے نہری منصوبے تعمیر کرکے علاقے کو زرخیز بنا دیا ہے۔
اس دریا کے پانی سے بھارتی صوبوں پنجاب، ہریانہ اور راجستھان میں زرعی زمین سیراب کی جاتی ہے۔ دریائے ستلج میں بھارت سے پاکستانی علاقے میں پانی اب صرف سیلاب کی صورت میں داخل ہوتا ہے کیونکہ بھارت اسے
Flood Release River
کے طور پر استعمال کرتا ہے۔
۔1849ء میں سکھوں اور انگریزوں کے درمیان جنگ سے پہلے یہ دریا ایک سرحد کا کام انجام دیتا تھا۔ کوٹ مٹھن کے مقام پر دریائے ستلج، دریائے سندھ سے مل جاتا ہے۔ زمانہ قدیم میں دریائے ستلج تحصیل احمد پور شرقیہ کے قصبہ اچ شریف کے نزدیک سے گزرتا تھا۔ اس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔
Comments
Post a Comment